حرفِ آغاز

دنیا معاشی و اقتصادی حالات كے شكار‏، كیسے؟

 

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

 

اندھیروں کو نکالا جارہا ہے

مگر گھر سے اجالا جارہا ہے

          وزیراعظم جناب ڈاکٹر من موہن سنگھ صاحب بڑے پُراعتماد لہجے میں قوم کو یہ خوش خبری سناتے رہتے ہیں کہ اس کساد بازاری کے دور میں جب کہ پوری دنیا معاشی واقتصادی زبوں حالی کی شکار ہے، بڑے بڑے ترقی یافتہ اور مستحکم ملکوں کا نظامِ معیشت لڑکھڑا گیا ہے، اس عالمی بحران کے باوجود ہمارا معاشی واقتصادی نظام مضبوطی کے ساتھ اپنے پیروں پر قائم ہے، ہم دن بہ دن پستی سے بلندی کی طرف اوراندھیرے سے اجالے کی جاب بڑھ رہے ہیں، اب وہ دن دور نہیں ہے کہ ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا نظر آئے گا۔

          اپنی حکومت کی کارکردگی کا یہ حسنِ تذکرہ موجودہ سربراہ ہی کی خصوصیت نہیں ہے؛ بلکہ اس گدّی پر جو بھی براجمان ہوتا ہے وہ اپنی حصولیابیوں کی داستان ملک وقوم سے ضرور بیان کرتا ہے، میدان سیاست کے ان کھلاڑیوں کا بالخصوص یہ شیوہ ہے کہ وہ ہمیشہ تصویر کا ایک ہی رخ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اور بہ کمال ہوشیاری دوسرے رخ کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔

ہیں ستارے کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا

          آخر اس برہنہ حقیقت سے کیوں کر چشم پوشی کی جاسکتی ہے کہ اسی آزادی و ترقی کے عہد میں ملک کو اس کی اعلیٰ قدروں سے محروم کیاگیا، اس کی انسانیت نوازی، صلح پسندی، صداقت شعاری، دیانت کیشی، وغیرہ پر شبخون اسی زمانہ میں مارا گیا، کون نہیں جانتا کہ ہندوستان کبھی اَمن وآشتی کا گہوارہ تھا، اَہنسا جس کی علامت اور پہچان تھی، بقائے باہمی، جیو، جینے دو جس کا طرزِ زندگی تھا؛ مگر اس دورِ ترقی میں اسی صلح پسند ہندوستان کو قتل وغارت گری کا مرکز بنادیاگیا، تیس ہزار سے زائد اس میں خونی فساد برپاکیے گئے، ارضِ وطن کے چپے چپے کو اس کے سپوتوں کے خون سے لہولہان کیاگیا اور نہجانے ملک کی کتنی پاک دامن بیٹیوں کی چادرِ عفت تار تار کردی گئی،انسانیت اور اہنسا اپنی تباہی پر آنسو بہاتی رہی، اسی ترقی کے زمانہ میں دن کے اجالے اور پولیس وفوج کی موجودگی میں ملک کی قدیم تاریخی عبادت گاہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اور قانون وانصاف اپنی نارسائی پر کفِ افسوس ملتے رہے۔ اسی ترقی و آزادی کے زیرسایہ ملک میں بدعوانیوں نے سراٹھایا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ملک کے وزیربا تدبیر سے لے کر سرکار کے معمولی اہلِ کار تک اسی بہتی گنگا میں نہارہے ہیں، قومی سرمایے کی اس عمومی لوٹ کھسوٹ پر امانت ودیانت تڑپتی رہی؛ مگر اس کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔

          اسی ترقی نے ہماری بہن، بیٹیوں کو گھروں کی محفوظ چہاردیواریوں سے نکال کر بے اماں سڑکوں پر کھڑا کردیا ہے، جس کے لازمی اثرات سے ملک کی پاکیزہ قدریں مجروح ہورہی ہیں،اور خود ہماری بہن بیٹیاں ناگفتنی تشدد وجارحیت کا شکار بن رہی ہیں؛ مگر ملک کے رہنما اور بَست وکُشاد کے مالک اپنی ترقیِ معکوس میں سرمست ہیں۔

          یہ دنیا جب سے وجود میں آئی ہے کسی قوم یا مذہب نے فواحش اور بدکاری کو مباح اور جائز قرار نہیں دیا ہے؛ بلکہ ساری دنیا اوراس میں رائج مذاہب بدکاری کی مذمت میں متفق اور ایک راے ہیں؛ کیونکہ یہ ایک ایسا جرم ہے جو بجاے خود انسانی فطرت سے متصادم ہونے کے فساد انگیز اور ہلاکت خیز بھی ہے، اس ایک جرم سے نہ جانے کتنے جرائم جنم لیتے ہیں جن کے تباہ کن اثرات سے صرف افراد ہی نہیں؛ بلکہ بسا اوقات پورا خاندان، اور پورا شہر تباہ ہوجاتا ہے اس وقت قتل وضرب کے جس قدر واقعات رونما ہورہے ہیں ان کی تہہ میں جھانک کر دیکھا جائے تو بیشتر واقعات کے پسِ پُشت شہوانی جذبات اور ناجائز جنسی تعلقات کا عمل دخل ملے گا۔

          عقل و دانائی کا ہمیشہ سے یہ فیصلہ رہا ہے کہ جرائم پر پابندی قائم کرنے کے ساتھ ان اسباب و ذرائع پر بھی پہرے بٹھائے جائیں جن سے جرائم وجود میں آتے ہیں، جرائم کو روکنے کے لیے سخت سے سخت ترصورتیں اختیار کرلی جائیں؛ مگر ان راہوں کو کھلا جھوڑ دیاجائے جن راستوں سے یہ جرائم سماج ومعاشرہ میں داخل ہوتے ہیں تویقین کرلیجیے کہ آپ ان جُرموں کے روکنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور نہ دنیا کی نظرمیں آپ ان کے روکنے میں سنجیدہ مانے جائیں گے؛ اس لیے اگر ہم واقعی اپنے معاشرہ سے اس گھناؤنی وبا کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پہلی فرصت میں ان رخنوں کو بند کرنا پڑے گا جن کے ذریعہ فاسد مادہ ہماری قومی زندگی میں درآیا ہے۔

          اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ فحاشی وبدکاری کا ایک بڑا سبب اجنبی مرد وعورت کا بے محابا اختلاط ہے، آج کے دور میں جب کہ جنسی انارکی اور شہوانی بے راہ روی کی قدم قدم پر نہ صرف افزائش؛ بلکہ ہمت افزائی ہورہی ہے، دین ومذہب، حیا وعفت کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہیں، کوچہ وبازار کا ذکر کیا شروفساد کی خودسر موجیں گھروں کی چہاردیواری سے ٹکرانے لگی ہیں، کیا ایسے فساد انگیز ماحول میں ماؤں، بہنوں اور بہو بیٹیوں کو سڑکوں، پارکوں اور کھیل کود کے میدانوں میں تنِ تنہا چھوڑ دینا انھیں فتنہ میں مبتلا کرنے اور ان کی جان کو جوکھم میں ڈالنے کے مرادف نہیں ہے، ابھی ماضی قریب میں جن گھرانوں میں روایتی پردہ کا رواج نہیں تھا، ان گھروں کی عورتیں بھی جب کسی ضرورت سے گھر سے کہیں دور جاتی تھیں تو بڑے بوڑھے ان کے ساتھ ہواکرتے تھے؛ مگر آج ہم نے ذمہ داری کا یہ معمولی جُوا بھی اپنے کندھوں سے اتار کر پھینک دیاہے اور ان بیچاریوں کو منجدھار کے حوالے کرکے دورکھڑے انھیں ہدایت دے رہے ہیں کہ دیکھنا دامن تر نہ ہونے پائے ہوشیار رہنا!

بایں عقل ودانش بباید گریست

          اسے اپنے قومی رہنماؤں کی ذہنی پستی اور فکری کج روی نہ کہا جائے تو پھر کیا کہا جائے کہ انھوں نے اپنی مزعومہ ترقی کے ہدف تک پہنچنے کے لیے ایک تو مغرب کی اندھی تقلید اختیار کی اور دوسرے عورتوں کو گھروں سے نکال کر میدان عمل میں مردوں کے دوش بہ دوش کھڑا کردیا اور اس سے جن مفاسد کے پیدا ہونے کا اندیشہ تھا اس کے تدارک کی کوئی تدبیر نہیں کی، جس کے نتیجے میں ایک ایسا جدید معاشرہ وجود میں آیا جس کے کردار سے آج پورا ہندوستان چیخ اٹھا ہے، گذشتہ مہینوں میں سماجی کارکن ”انّا ہزارے“ کی تحریک، اور حالیہ دنوں میں دلی وغیرہ میں عوامی احتجاجی مظاہرے دراصل اس بات کا کھلا انتباہ ہیں کہ ہمارے قومی وسیاسی رہنما ملک کو جس سَمت لے جانا چاہتے ہیں، ہندوستانی عوام کو یہ قطعاً گوارا نہیں ہے اور وہ اپنی قدیم اَقدار کے تحفظ کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں، اگر اس حقیقت کو کانگریس پارٹی کی صدر نہیں سمجھ پارہی ہیں تو چنداں تعجب نہیں؛ لیکن وزیراعظم اور ملک کے دوسرے لیڈران اس کی اہمیت اور نزاکت کو محسوس نہ کریں تو باعثِ تعجب ہی نہیں قابلِ افسوس ہے۔

جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تونے

وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی

----------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ‏، جلد: 97 ‏، ربیع الاول 1434 ہجری مطابق جنوری 2013ء